Wednesday 31 October 2012

وہ اس زمین پہ رہتی تھی آسماں کی طرح

وہ اس زمین پہ رہتی تھی آسماں کی طرح
کوئی نہیں ہے یہاں آج میری ماں کی طرح
اب آنسوؤں کی کتابیں کبھی نہ لِکھوں گا
کہ ڈال دی ہے نئی نالہ و فغاں کی طرح
اسی کے دَم سے یہ مٹی کا گھر منور تھا
وہ جس کی قبر چمکتی ہے کہکشاں کی طرح
وہ خود بھی لڑتی تھی سورج سے روز میرے لیے
ہے اس کی یاد بھی اِک ابرِ مہرباں کی طرح
طویل رات کا مسکن جو آج لگتا ہے
یہی مکان تھا اِک روز لامکاں کی طرح
اب اس کی موت پہ خود موت بھی پریشاں ہے
کہ اس طرح سے پڑی عمر جاوداں کی طرح
جہاں کو آج بھی اس کی بڑی ضرورت ہے
رہے گی اب وہ محبت کی داستاں کی طرح
ترس رہا ہوں میں پانی کی بوند بوند کو اب
حیات ہو گئی اِک دشتِ بے اماں کی طرح

احمد فواد

No comments:

Post a Comment