تمہارے ساتھ سفر کی صداقتیں بھی گئیں
جنونِ عشق کی ساری حکایتیں بھی گئیں
تمہارے بعد رہی رُت عجیب گلشن کی
وہ چھاؤں بھی تو گئی وہ تمازتیں بھی گئیں
قدم قدم پہ تھیں بکھری پڑی ہوئی یادیں
عجیب قحط پڑا اب کے سال ہم پر بھی
بصارتیں بھی گئیں اور سماعتیں بھی گئیں
ہر ایک رشتہ ہر اک ربط تم سے ٹُوٹ گیا
محبتیں بھی گئیں، وہ عداوتیں بھی گئیں
کہ منزلوں کا کوئی بھی نشاں نہیں ملتا
سفر میں رائیگاں اپنی مسافتیں بھی گئیں
تمہاری دید کا منظر بدل گیا جب سے
تمہاری ذات کی ساری شباہتیں بھی گئیں
نزہت عباسی
No comments:
Post a Comment