Sunday 30 August 2020

تمہارے ساتھ سفر کی صداقتیں بھی گئیں

تمہارے ساتھ سفر کی صداقتیں بھی گئیں
جنونِ عشق کی ساری حکایتیں بھی گئیں
تمہارے بعد رہی رُت عجیب گلشن کی
وہ چھاؤں بھی تو گئی وہ تمازتیں بھی گئیں
قدم قدم پہ تھیں بکھری پڑی ہوئی یادیں
چلی سموم تو دل کی امانتیں بھی گئیں
عجیب قحط پڑا اب کے سال ہم پر بھی
بصارتیں بھی گئیں اور سماعتیں بھی گئیں
ہر ایک رشتہ ہر اک ربط تم سے ٹُوٹ گیا
محبتیں بھی گئیں، وہ عداوتیں بھی گئیں
کہ منزلوں کا کوئی بھی نشاں نہیں ملتا
سفر میں رائیگاں اپنی مسافتیں بھی گئیں
تمہاری دید کا منظر بدل گیا جب سے
تمہاری ذات کی ساری شباہتیں بھی گئیں

نزہت عباسی

No comments:

Post a Comment