Sunday 30 August 2020

جانے آیا تھا کیوں مکان سے میں

جانے آیا تھا کیوں مکان سے میں
کیا خریدوں گا اس دکان سے میں
ہو گیا اپنی ہی انا سے ہلاک
دب گیا اپنی ہی چٹان سے میں
ایک رنگین سی بغاوت پر
کٹ گیا سارے خاندان سے میں
روز باتوں کے تیر چھوڑتا ہوں
اپنے اجداد کی کمان سے میں
مانگتا ہوں کبھی لرز کے دعا
کبھی لڑتا ہوں آسمان سے میں 
اے مِرے دوست تھک نہ جاؤں کہیں
تِری آواز کی تکان سے میں
ڈرتا رہتا ہوں خود بھی اظہر خاں
اپنے اندر کے اس پٹھان سے میں

اظہر عنایتی

No comments:

Post a Comment