Saturday, 29 August 2020

ہوائے شام کے جھونکے نہیں تھے آرے تھے

جوان بیوہ کی آہوں کے استعارے تھے
ہواۓ شام کے جھونکے نہیں تھے آرے تھے
دلاسہ دیتے ہوئے لوگ کیا سمجھ پاتے
ہم ایک شخص نہیں کائنات ہارے تھے
مِرے کریم!! کھلی آنکھ سے گزار کبھی
وہ قافلے جو مِرے خواب سے گزارے تھے
یہ اور بات کہ پیاسے کی پیاس لے ڈوبی
فرات نے تو بڑے ہاتھ پاؤں مارے تھے
ہمارے پیار کی تفصیل پوچھنے والو
ہم ایک باہمی دریا کے دو کنارے تھے
پھر ایک دن میں منافق بنا تو یار بنے
وگرنہ جان کے دشمن تو ڈھیر سارے تھے

راکب مختار

No comments:

Post a Comment