جوان بیوہ کی آہوں کے استعارے تھے
ہواۓ شام کے جھونکے نہیں تھے آرے تھے
دلاسہ دیتے ہوئے لوگ کیا سمجھ پاتے
ہم ایک شخص نہیں کائنات ہارے تھے
مِرے کریم!! کھلی آنکھ سے گزار کبھی
یہ اور بات کہ پیاسے کی پیاس لے ڈوبی
فرات نے تو بڑے ہاتھ پاؤں مارے تھے
ہمارے پیار کی تفصیل پوچھنے والو
ہم ایک باہمی دریا کے دو کنارے تھے
پھر ایک دن میں منافق بنا تو یار بنے
وگرنہ جان کے دشمن تو ڈھیر سارے تھے
راکب مختار
No comments:
Post a Comment