Friday 28 August 2020

کوئی ادا تو محبت میں پائی جاتی ہے

کوئی ادا تو محبت میں پائی جاتی ہے 
کہ جس پہ جان کی بازی لگائی جاتی ہے 
ستم میں ان کے کمی آج بھی نہیں کوئی 
مگر ادا میں حمیت سی پائی جاتی ہے 
جو سانس لینے سے بھی دل میں دکھتی رہتی ہے 
وہ چوٹ اور بھی ضد سے دکھائی جاتی ہے
ستم کیا کہ کرم اس نے مجھ پہ کچھ بھی سہی
زباں پہ بات عزیزوں کی لائی جاتی ہے
اٹھا چکی ہے طبیعت جو بندگی کے مزے
کسی کے جور سے وہ باز آئی جاتی ہے
تڑپ رہے ہو بتاؤ جگر کہاں ہے چوٹ
کہیں طبیب سے حالت چھپائی جاتی ہے

جـگر بریلوی

No comments:

Post a Comment