کوئی ادا تو محبت میں پائی جاتی ہے
کہ جس پہ جان کی بازی لگائی جاتی ہے
ستم میں ان کے کمی آج بھی نہیں کوئی
مگر ادا میں حمیت سی پائی جاتی ہے
جو سانس لینے سے بھی دل میں دکھتی رہتی ہے
ستم کیا کہ کرم اس نے مجھ پہ کچھ بھی سہی
زباں پہ بات عزیزوں کی لائی جاتی ہے
اٹھا چکی ہے طبیعت جو بندگی کے مزے
کسی کے جور سے وہ باز آئی جاتی ہے
تڑپ رہے ہو بتاؤ جگر کہاں ہے چوٹ
کہیں طبیب سے حالت چھپائی جاتی ہے
جـگر بریلوی
No comments:
Post a Comment