Friday 28 August 2020

یہاں تنگئ قفس ہے وہاں فکر آشیانہ

یہاں تنگئ قفس ہے وہاں فکرِ آشیانہ
نہ یہاں مِرا ٹھکانہ نہ وہاں مِرا ٹھکانہ
مجھے یاد ہے ابھی تک تِرے جور کا فسانہ
جو میں راز فاش کر دوں تجھے کیا کہے زمانہ
نہ وہ پھول ہیں چمن میں نہ وہ شاخِ آشیانہ
فقط ایک برق چمکی کہ بدل گیا زمانہ
یہ رقیب اور تم سے، رہ و رسمِ دوستانہ
ابھی جس ہوا میں تم ہو، وہ بدل گیا زمانہ
مِرے سامنے چمن کا نہ فسانہ چھیڑ ہمدم
مجھے یاد آ نہ جائے کہیں اپنا آشیانہ
سرِ راہ کیسے سُوجھی تجھے ہجوِ مۓ کی واعظ
نہ یہاں ہے تیری نہ مِرا شراب خانہ
کسی سرنگوں سی ڈالی پہ رکھیں گے چار تنکے
نہ بلند شاخ ہو گی نہ جلے گا آشیانہ
نہ سنا سکے مسلسل غمِ دورئ وطن کو
کبھی رو لیے گھڑی بھر، کبھی کہہ دیا فسانہ
مِرے روٹھ جانے والے! تجھے یوں منا رہا ہوں
کہ قضا کے واسطے بھی کوئی چاہیئے بہانہ
کہیں مے  کشوں سے ساقی نہ نگاہ پھیر لینا
کہ انہیں کے دم سے قائم ہے تِرا شراب خانہ
قمر اپنے داغِ دل کی وہ کہانی میں نے چھیڑی
کہ سنا کیے ستارے، مِرا رات بھر فسانہ

استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment