تم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک
شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک
دیکھیے محفلِ ساقی کا نتیجہ کیا ہو؟
بات شیشے کی پہنچنے لگی پیمانے تک
اس جگہ بزم میں ساقی نے بٹھایا ہے ہمیں
صبح ہوتی نہیں اے عشق یہ کیسی شب ہے
قیس و فرہاد کے دہرا لیے افسانے تک
پھر نہ طوفان اٹھیں گے نہ گرے گی بجلی
یہ حوادث ہیں غریبوں ہی کے مٹ جانے تک
میں نے ہر چند بلا ٹالنی چاہی،۔۔ لیکن
شیخ نے ساتھ نہ چھوڑا مِرا مے خانے تک
وہ بھی کیا دن تھے کہ گھر سے کہیں جاتے ہی نہ تھے
اور گئے بھی تو فقط شام کو مے خانے تک
میں وہاں کیسے حقیقت کو سلامت رکھوں
جس جگہ رد و بدل ہو گئے افسانے تک
باغباں فصل بہار آنے پہ وعدہ تو قبول
اور اگر ہم نہ رہے فصل بہار آنے تک
اور تو کیا کہوں اے شیخ! تِری ہمت پر
کوئی کافر ہی گیا ہو تِرے مے خانے تک
اے قمر شام کا وعدہ ہے وہ آتے ہوں گے
شام کہلاتی ہے تاروں کے نکل آنے تک
اے قمر صبح ہوئی اب تو اٹھو محفل سے
شمع گل ہو گئی رخصت ہوۓ پروانے تک
استاد قمر جلالوی
No comments:
Post a Comment