Friday, 28 August 2020

اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے

اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے
آپ جیسے بھی ہیں نیت آپ کی جیسی بھی ہے
کھل چکی ہیں اس کے گھر کی کھڑکیاں میرے لیے
رخ مِری جانب رہے گا، بے رخی جیسی بھی ہے
چوٹیاں چھو کر گزرتے ہیں برستے کیوں نہیں
بادلوں کی ایک صورت آدمی جیسی بھی ہے
اجنبی شہروں میں تجھ کو ڈھونڈھتا ہوں جس طرح
اک گلی ہر شہر میں تیری گلی جیسی بھی ہے
آج کے دکھ ہی بہت ہیں بیم فردا کس لیے
کٹ ہی جائے گی اذیت کی گھڑی جیسی بھی ہے
دھندلا دھندلا ہی سہی رستہ دکھائی تو دیا
آج کا دن ہے غنیمت روشنی جیسی بھی ہے
جھولتی ہے میرے دل میں ایک شاخ اس پیڑ کی
وہ تر و تازہ ہے یا سوکھی ہوئی جیسی بھی ہے
میں نے دیکھا ہے فلک کو جاگتے سوتے ہوئے
میری آنکھوں تک تو آئی چاندنی جیسی بھی ہے
اب کہاں لے جائیں سانسوں کی سلگتی آگ کو
زندگی ہے زندگی اچھی بری جیسی بھی ہے
کوئی موسم ہو مِری خوشبو رہے اس پھول میں
داستاں میری کہی یا ان کہی جیسی بھی ہے
اپنا حق شہزاد ہم چھینیں گے مانگیں گے نہیں
رحم کی طالب نہیں بے چارگی جیسی بھی ہے

شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment