اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے
خاک سے بیٹھ گئے خاک اڑانے والے
یہ الگ بات میسر لبِ گویا نہ ہوا
دل میں وہ دھوم کہ سنتے ہیں زمانے والے
کسی منزل کی طرف کوئی قدم اٹھ نہ سکا
دل سا وحشی کبھی قابو میں نہ آیا یارو
ہار کر بیٹھ گئے جال بچھانے والے
دن کی کجلائی ہوئی دھوپ میں کیا دیکھتے ہیں
شام ہوتے ہی پریشاں نظر آنے والے
جلوۂ حسن سزاوارِ نظر ہو نہ سکا
کچھ نہیں دیکھ سکے آنکھ اٹھانے والے
یادِ ایّم کے دروازے سے مت جھانک مجھے
آنکھ سے دور نہ ہو دل میں سمانے والے
تیری قربت میں گزارے ہوئے کچھ لمحات
دل کی تنہائی کا احساس دلانے والے
انہی جھونکوں سے ہے شہزاد چمک آنکھوں میں
یہی جھونکے ہیں چراغوں کو بجھانے والے
شہزاد احمد
No comments:
Post a Comment