کیا ہوا گر چشم تر سے خوں ٹپک کر رہ گیا
بادۂ گلگوں کا ساغر تھا چھلک کر رہ گیا
دل سواد زلف میں ڈھونڈے ہے رستا مانگ کا
راہ جو بھولا مسافر سو بھٹک کر رہ گیا
سینکڑوں مر مر گئے ہیں عشق کے ہاتھوں سے آہ
ہمرہاں پہنچے کبھی کے منزل مقصود کو
دو قدم چلتے ہی میں ہیہات تھک کر رہ گیا
تاب اس بالی کے موتی کی نہیں کیا زلف میں
اے دل آشفتہ سچ کہہ کیوں تو بک کر رہ گیا
سر زمین شام میں تارا گرا تھا ٹوٹ کر
یا اندھیری رات میں جگنوں چمک کر رہ گیا
طرفۃ العین اس کی مژگاں کی تصور سے نصیر
خار سا آنکھوں میں میری کچھ کھٹک کر رہ گیا
شاہ نصیر دہلوی
No comments:
Post a Comment