Saturday 29 August 2020

کیا ہوا گر چشم تر سے خوں ٹپک کر رہ گیا

کیا ہوا گر چشم تر سے خوں ٹپک کر رہ گیا 
بادۂ گلگوں کا ساغر تھا چھلک کر رہ گیا 
دل سواد زلف میں ڈھونڈے ہے رستا مانگ کا 
راہ جو بھولا مسافر سو بھٹک کر رہ گیا 
سینکڑوں مر مر گئے ہیں عشق کے ہاتھوں سے آہ 
میں ہی کیا پتھر سے اپنا سر پٹک کر رہ گیا 
ہمرہاں پہنچے کبھی کے منزل مقصود کو 
دو قدم چلتے ہی میں ہیہات تھک کر رہ گیا 
تاب اس بالی کے موتی کی نہیں کیا زلف میں 
اے دل آشفتہ سچ کہہ کیوں تو بک کر رہ گیا 
سر زمین شام میں تارا گرا تھا ٹوٹ کر 
یا اندھیری رات میں جگنوں چمک کر رہ گیا 
طرفۃ العین اس کی مژگاں کی تصور سے نصیر
خار سا آنکھوں میں میری کچھ کھٹک کر رہ گیا ​

شاہ نصیر دہلوی

No comments:

Post a Comment