Saturday 29 August 2020

جو صورت گیر حسن و عشق کی دنیا کہیں ہوتی

جو صورت گیر حسن و عشق کی دنیا کہیں ہوتی
تِرے ضو کا فلک بنتا مِرے ظل کی زمیں ہوتی
تمنا ہے کہ اب ایسی جگہ کوئی کہیں ہوتی
اکیلے بیٹھے رہتے یاد ان کی دل نشیں ہوتی
وہاں رہتے جہاں دود و فغاں کا آسماں ہوتا
وہاں بستے جہاں خاکسترِ دل کی زمیں ہوتی
پتہ چلتا کہ غم میں زندگی کیونکر گزرتی ہے
تِرے قالب میں کچھ دن کو مِری جانِ حزیں ہوتی
ستاروں کو یہ حسرت ہے کہ ہوتے وہ مِرے آنسو
تمنا کہکشاں کو ہے، وہ میری آستیں ہوتی
دکھا دیتے مزہ پھر تم کو ہم اپنے تڑپنے کا
جو عالم بے فلک ہوتا جو دنیا بے زمیں ہوتی
نہیں کرتے ہیں وعدہ دید کا وہ حشر سے پہلے
دلِ بے تاب کی ضد ہے ابھی ہوتی یہیں ہوتی
جو مے خانہ میں ہے ام الخبائث حضرتِ واعظ
پہنچ جاتی جو حجرہ میں شراب الصالحیں ہوتی
ذرا دیکھو تو تم انصاف سے مجذوب کی ہیئت
محبت کے ریاکاروں کی یہ صورت نہیں ہوتی

عزیز الحسن مجذوب

No comments:

Post a Comment