دل جلوہ گاہِ صورت جانانہ ہو گیا
شیشہ یہ ایک دم میں پری خانہ ہو گیا
شب کیوں کہ سلطنت نہ کرے تاجِ زر سے شمع
رشکِ پرِ ہما پر پروانہ ہو گیا
کیفیتوں سے گردشِ چشمِ بتاں کی دل
طغیانیٔ سرشک سے اپنی بھی بعد قیس
دریا کا پاٹ دامنِ ویرانہ ہو گیا
زنجیر کیوں نہ اس کی قسم بوس ہو بھلا
جو کوئی تیرے عشق میں دیوانہ ہو گیا
یاں تک کیا ہے شہرۂ آفاق عشق نے
قصہ مِرا بھی خلق میں افسانہ ہو گیا
کیا روئیے خرابیٔ اقلیمِ دل کو دیکھ
آنکھوں کے دیکھتے ہی تو کیا کیا نہ ہو گیا
ساقی کدھر پھرے ہے تو تنہا برنگِ جام
تجھ بِن خراب ان دنوں مے خانہ ہو گیا
شاہ نصیر دہلوی
No comments:
Post a Comment