Saturday 29 August 2020

وہ کیا جانے کہ زخم دل کہاں تک تھا کہاں تک ہے

عبث کہتا ہے چارہ گر یہاں تک تھا یہاں تک ہے
وہ کیا جانے کہ زخمِ دل کہاں تک تھا، کہاں تک ہے
مِرا خاموش ہو جانا،۔ دلیلِ مرگ ہے گویا
مثالِ نَے مِرا جینا فغاں تک تھا، فغاں تک ہے
نہ دھوکہ دے مجھے ہمدم وہ آیا ہے نہ آئے گا
پیامِ وعدۂ وصلت زباں تک تھا، زہاں تک ہے
کٹی روتے ہی اب تک عمر آگے دیکھئے کیا ہو
بتاؤں کیا کہ دل میں غم کہاں تک تھا، کہاں تک ہے
وہاں تک قیس کب پہنچا؟ وہاں فرہاد کب آیا؟
بیاباں میں گزر اپنا جہاں تک تھا، جہاں تک ہے
مجھے تو عمر بھر رونا ہے یارو، کوئی موسم ہو
یہ مت سمجھو مِرا نالہ خزاں تک تھا، خزاں تک ہے
قدم راہِ اثر میں اس نے رکھا تھا، نہ رکھا ہے
یہ وہ نالہ ہے جو اب تک زباں تک تھا، زباں تک ہے
مِرے ہی دل تک آنا تھا، مِرے ہی دل تک آنا تھا
خدنگِ ناز کا پلہ یہاں تک تھا، یہاں تک ہے
تکلف یہ تِری خاموشیاں تجھ کو مٹا دیں گی
زمانے میں تِرا چرچا فغاں تک تھا، فغاں تک ہے​

عزیز الحسن مجذوب

No comments:

Post a Comment