آپ کے در پہ بہت دیر سے بیٹھے ہوئے ہیں
ہاتھ اٹھاۓ تھے دعا کے لیے، اٹھے ہوئے ہیں
خواب کب تھا وہ تو اِک نیند کا جھونکا تھا حضور
آپ اب تک اسی اک وہم میں الجھے ہوئے ہیں
💓مدتوں بعد سہی ایک نظر دیکھ تو لو💓
وہ سمجھتا ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں اس کے بغیر
ہم جسے عمرِِ گزشتہ ہی سے بھولے ہوئے ہیں
دشمنی ہے تو پھر اے دشمنِ جاں! وار بھی کر
تیر ترکش سے بہت ہم نے بھی کھینچے ہوئے ہیں
اک طرف شامِ فراق، ایک طرف صبحِ وصال
درمیاں برف کے لمحے ہیں جو رِستے ہوئے ہیں
چھوڑئیے دوسری باتوں کو، ذرا یہ تو بتائیں
آپ ہم سے بھلا کس بات پہ روٹھے ہوئے ہیں
لہر در لہر اڑے جائیں گے، بہہ جائیں گے
ریگِ ساحل پہ جو دن پانی سے لکھے ہوئے ہیں
جمع کر کے سرِ دل اپنے سبھی خواب و سراب
ہم نے اک شخص کی تحسین کو بھیجے ہوئے ہیں
فرصتِ عرضِ محبت بھی کہاں باقی رہی
ہم تو بس درد کی سِل سینے پہ رکھے ہوئے ہیں
ایوب خاور
No comments:
Post a Comment