Saturday 29 August 2020

ہاتھ اس شخص کو ہم سے بھی تو دھونے پڑے ہیں

اشکِ آخر تو نہیں ہیں جو بلونے پڑے ہیں
دل میں دو چار ابھی اور بھی کونے پڑے ہیں
کس کی دلجوئی کریں اور دلاسا کسے دیں؟؟
کیا کریں ہم کہ ہمیں اپنے ہی رونے پڑے ہیں
ایک دہشت در و دیوار سے چپکی ہوئی ہے
لاش کے پاس ہی بچے کے کھلونے پڑے ہیں
تیرے جانے سے بس اتنا ہی ہوا ہے کہ ہمیں
ہجر کی اوس میں کچھ چاند بھگونے پڑے ہیں
تُو نے دیکھا بھی تو کس آن سے دیکھا ہے کہ بس
دل تو کیا دل کی طرح ہوش بھی کھونے پڑے ہیں
عشق تو خیر کہاں کا تھا مگر جانِ جہاں
نوکِ مژگاں میں ماہ و سال پرونے پڑے ہیں
ہاۓ اس حسنِ تغافل کے کرشمے، کہ ہمیں
ناخن اپنے ہی مساموں میں گڑونے پڑے ہیں
یہ نہیں ہے کہ ہمیں کو ہے بچھڑنے کا ملال
ہاتھ اس شخص کو ہم سے بھی تو دھونے پڑے ہیں

ایوب خاور

No comments:

Post a Comment