Saturday 29 August 2020

پیروں میں ہیں زنجیریں، ہیں لب پہ مرے پہرے

پیروں میں ہیں زنجیریں، ہیں لب پہ مرے پہرے
اک خوابِ تمنا کے ہیں زخم بہت گہرے
انجان نہیں لیکن، یہ دوست نہیں میرے
میں انکو سمجھتی ہوں پڑھ رکھے ہیں سب چہرے
طوفان سے کیا ڈرنا؟، طوفاں ہی تو اپنا ہے
ساحل سے کہیں بہتر دریا یہ مِرے گہرے
شاید کہ خریدے ہیں احباب نے سب میرے
اک روز نمائش میں رکھے تھے کئی چہرے
بینائی جو دی ہے تو کر چاک سبھی پردے
اس ایک تماشے پر کیا میری نظر ٹھہرے

نزہت عباسی

No comments:

Post a Comment