Saturday, 29 August 2020

شرار و برق سے ہم تو نئی بنیاد رکھیں گے

شرار و برق سے ہم تو نئی بنیاد رکھیں گے
کہ خار و خس یونہی ہم کو سدا برباد رکھیں گے
نئی طرزِ ستم وہ بھی اگر ایجاد رکھیں گے
تو ہم اب کے نئی لَے نالہ و فریاد رکھیں گے
ہمارے خوں سے لکھی جائیگی تاریخ گلشن کی
ہمیشہ یاد ہم کو دیکھنا "صیاد" رکھیں گے
رہے امید دل میں یہ بھی کیا ان کا کرم کم ہے
کبھی وہ لطف ہم پر اور کبھی بیداد رکھیں گے
قفس میں یہ نیا آئین ہمارے بعد ہی ہو گا
کہ بلبل کو اسیری میں بھی وہ آزاد رکھیں گے
کہ سارے فیصلے اپنے انہیں کے ہاتھ میں ہونگے
کبھی وہ شاد رکھیں گے، کبھی ناشاد رکھیں گے
خزاں کا رنگ ہو گا کیوں بھلا فصلِِ بہاراں میں 
کہ دل کو ہم تِری یادوں سے جب آباد رکھیں گے

نزہت عباسی

No comments:

Post a Comment