Friday 28 August 2020

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لئے

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مِرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
وہ مرحلہ ہے کہ اب سیلِ خوں پہ راضی ہیں
ہم اس زمین کو شاداب دیکھنے کے لیے
جو ہو سکے تو ذرا شہ سوار لوٹ کے آئیں
پیادگاں کو ظفر یاب دیکھنے کے لیے
کہاں ہے تُو کہ یہاں جل رہے ہیں صدیوں سے
چراغ دیدہ و محراب دیکھنے کے لیے

عرفان صدیقی

No comments:

Post a Comment