Friday 28 August 2020

زندہ رہنا تھا سو جاں نذر اجل کر آیا

زندہ رہنا تھا سو جاں نذرِ اجل کر آیا
میں عجب عقدۂ دشوار کو حل کر آیا
میں نے کی تھی صفِ اعدا سے مبارز طلبی
تیر لیکن صفِ یاراں سے نکل کر آیا
تُو نے کیا سوچ کے اس شاخ پہ وارا تھا مجھے
دیکھ میں پیرہنِ برگ بدل کر آیا
یہ ہوس ہو کہ محبت ہو، مگر چہرے پر
اِک نیا رنگ اسی آگ میں جل کر آیا

عرفان صدیقی

No comments:

Post a Comment