مرض الموت سے محفوظ
محبت سے کوئی جگہ خالی نہیں
سوائے مٹی سے بھرے پیٹ کے
اور ان آنکھوں کے
جو اندھیرے میں دیکھ لیتی ہیں
کالی دولت
اور مرمریں میناروں والی مسجدوں میں
جو نفرتوں کی پناہ گاہیں بنا دی گئیں
وہ گھر، جس کی بنیادوں میں چوہوں نے
بِل بنا لیے
بندریا کے پاؤں جلنے لگے تو
اس نے اپنا بچہ پاؤں تلے دبا لیا
جھیل خشک ہو گئی تو
موت مچھلیوں کی ضرورت بن گئی
کُونج مُردہ ساتھی سے پیوست ہو کر رہ گئی
حالانکہ اس کے پر سلامت تھے
اور پیٹ بھرا ہوا
پروں میں لہو کی لہریں بے قابو تھیں
اور آسمان اسے بار بار بلا رہا تھا
لیکن اس نے مردہ خور کیڑوں کی
آواز پر کان رکھے
اور مٹی سے مٹی ہو جانے والی
محبت کے سینے پر سر رکھ کر
اپنی آنکھیں موند لیں
علی محمد فرشی
No comments:
Post a Comment