Saturday 29 August 2020

محبت سے کوئی جگہ خالی نہیں

مرض الموت سے محفوظ

محبت سے کوئی جگہ خالی نہیں
سوائے مٹی سے بھرے پیٹ کے
اور ان آنکھوں کے
جو اندھیرے میں دیکھ لیتی ہیں
کالی دولت
جو ہماری نسلوں کی ہڈیاں بیچ کر جمع کی گئی
اور مرمریں میناروں والی مسجدوں میں
جو نفرتوں کی پناہ گاہیں بنا دی گئیں
وہ گھر، جس کی بنیادوں میں چوہوں نے
بِل بنا لیے
بندریا کے پاؤں جلنے لگے تو
اس نے اپنا بچہ پاؤں تلے دبا لیا
جھیل خشک ہو گئی تو
موت مچھلیوں کی ضرورت بن گئی
کُونج مُردہ ساتھی سے پیوست ہو کر رہ گئی
حالانکہ اس کے پر سلامت تھے
اور پیٹ بھرا ہوا
پروں میں لہو کی لہریں بے قابو تھیں
اور آسمان اسے بار بار بلا رہا تھا
لیکن اس نے مردہ خور کیڑوں کی
آواز پر کان رکھے
اور مٹی سے مٹی ہو جانے والی
محبت کے سینے پر سر رکھ کر
اپنی آنکھیں موند لیں

علی محمد فرشی

No comments:

Post a Comment