اک زمانے سے نہیں فرصتِ عشقِ خوباں
اپنی وحشت پہ ہے اب بھولے فسانوں کا گماں
فکر کی آگ میں جلنا ہے جہنم کا عذاب
ہو خلا سر میں تو دنیا بھی ہے جنت کا مکاں
رخصتِ غم بھی جو ملتی ہے تو اک دو دن کی
اپنی پرچھائیوں، خوابوں کا تعاقب ہے جنوں
اندھے بن جائیں تو پالیں گے سکوں دیدہ وراں
گھر لٹاتے ہیں مٹا دیتے ہیں، خود کو احمق
عقل لاشوں پہ سجاتی ہے ترقی کی دکاں
کاٹھ کے پتلوں کی بیعت ہے فضیلت کی سند
کرسیاں، مسندیں منبر ہیں بڑائی کے نشاں
مرثیے لکھے بہت ہجو بھی کر لیں کچھ روز
ہم قصیدہ بھی سنا دیں ہے ملے تو انساں
وحید اختر
No comments:
Post a Comment