گمان و شک کے تلاطم اتار پار مجھے
نہیں کنارا تو گرداب میں اتار مجھے
جو گل تھے زینتِ دستارِ شہسوارِ بہار
ملے ہیں بن کے غبارِ پسِ بہار مجھے
صلیبِ معرفتِ ذات کائنات ہے آج
مجھے خبر ہے تِری آستیں میں خنجر ہے
جو وار کرنا ہے نظریں ملا کے مار مجھے
تمام رات کا جاگا ہوا تھا، سویا ہوں
ٹھہر کے در پہ مِرے اے سحر پکار مجھے
اگر ہے نور کا سائل ہُوا کرے خورشید
خود اپنی آگ کی تابش ہے سازگار مجھے
رضاۓ مسند و کرسی کے تھے سبھی خواہاں
عزیز خاک نشینوں کا تھا وقار مجھے
خدا کو پا کے زمانہ پرست کھو بیٹھے
انا پرستی میں ہاتھ آیا کردگار مجھے
وحید اختر
No comments:
Post a Comment