Wednesday 26 August 2020

ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے

كل نفس ذائقۃ الموت

ہمیں کیا جو تُربت پہ میلے رہیں گے
تہِ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے
گل و غنچہ و سرو کھلتے رہیں گے، مہکتے گلاب اور بیلے رہیں گے
بہت سے گرو اور چیلے رہیں گے، بڑے عرس ہوں گے، جھمیلے رہیں گے
ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے
تہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے

تنیں گے اگر شامیانے ہمیں کیا، رہیں گے جو گانے بجانے ہمیں کیا
بنیں گے جو نقار خانے ہمیں کیا، کھلیں گے اگر قہوہ خانے ہمیں کیا
ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے
تہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے
اگر دوست احباب آئیں ہمیں کیا، ہوۓ جمع اپنے پراۓ ہمیں کیا
کوئی روۓ آنسو بہاۓ ہمیں کیا، پڑے ہوں گے ہم منہ چھپاۓ ہمیں کیا
ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے
تہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے
بہن بھائی سب آ کے رویا کریں گے، عزیز و اقرباء جان کھویا کریں گے
ہمیں آنسوؤں میں ڈبویا کریں گے، پڑے بے خبر ہم تو سویا کریں گے
ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے
تہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے
کسی نے ہمارا کیا غم تو کیا ہے، اگر کوئی ہو چشمِ پر نم تو کیا ہے
کرے حشر تک کوئی ماتم تو کیا ہے، نہیں ہوں گے جب سامنے ہم تو کیا ہے
ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے
تہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے
غنی ہوں گے اہل توکل بھی ہوں گے، بہت بلبلیں آئیں گی گل بھی ہوں گے
اگر ہوں گی قوالیاں، قُل بھی ہوں گے، بڑی دھوم ہوگی بہت غُل بھی ہوں گے
ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے
تہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے
کوئی پھول چادر چڑھاتا رہے گا، کوئی شمع تربت جلاتا رہے گا
تعلق جو دنیا سے جاتا رہے گا، نہ رشتہ رہے گا، نہ ناتا رہے گا
ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے
تہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے
حسینوں کے تو ڈیرے بھی گلزار ہوں گے، رئیسوں امیروں کے دربار ہوں گے
پر اہلِ تماشا سے بازار ہوں گے، ہمارے لیے سب یہ بے کار ہوں گے
ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے
تہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے
ہے جیسا عجب تاج گنج آگرے کا، جو اکبر ہو اپنا بھی ایسا ہی روضہ
زیارت کرے جس کی آ آ کے دنیا، ہو سب کچھ، مگر یہ تو فرمائیے گا
ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے
تہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے

عزیز الحسن مجذوب

No comments:

Post a Comment