Wednesday 26 August 2020

اک دن مرنا ہے آخر موت ہے

بلا شبہ موت برحق ہے

اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
سرکشی زیر فلک زیبا نہیں، دیکھ جانا ہے تجھے، زیر زمیں
جب تجھے مرنا ہے اک دن بالیقین، چھوڑ فکر ایں و آں کر فکرِ دیں
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے

بہر غفلت یہ تِری ہستی نہیں دیکھ، جنت اس قدر سستی نہیں
رہگزر دنیا ہے یہ بستی نہیں، جاۓ عیش و عشرت و مستی نہیں
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
عیش کر غافل، نہ تو آرام کر، مال حاصل کر، نہ پیدا نام کر
یادِ حق دنیا میں صبح و شام کر، جس لیے آیا ہے تُو، وہ کام کر
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
مال و دولت کا بڑھانا ہے عبث، زائد از حاجت کمانا ہے عبث
دل کا دنیا سے لگانا ہے عبث، رہگزر کو گھر بنانا ہے عبث
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
عیش و عشرت کے لیے انساں نہیںی یاد رکھ تُو بندہ ہے مہماں نہیں
غفلت و مستی تجھے شایاں نہیں، بندگی کر تُو اگر نادان نہیں
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
دفن خود صد ہا کئے زیر زمیں، پھر بھی مرنے کا نہیں حق الیقیں
تجھ سے بڑھ کر بھی کوئی غافل نہیں، کچھ تو عبرت چاہئے نفسِ لعین
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
یوں نہ اپنے آپ کو بے کار رکھ، آخرت کے واسطے تیار رکھ
غیر حق سے قلب کو بے زار رکھ، موت کا ہر وقت استحضار رکھ
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
تُو سمجھ ہرگز نہ قاتل موت کو، زندگی کا جان حاصل موت کو
رکھتے ہیں محبوب عاقل موت کو، یاد رکھ ہر وقت غافل موت کو
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
تُو ہے اس عبرت کدہ میں بھی مگن، گو ہے یہ دارالمحن بیت الحزن
عقل سے خارج ہے یہ تیرا چلن، چھوڑ غفلت عاقبت اندیش بن
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
یہ تیری غفلت ہے بے عقلی بڑی، مسکراتی ہے قضا سر پر کھڑی
موت کو پیشِ نظر رکھ ہر گھڑی، پیش آنے کو ہے منزل کڑی
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
گرتا ہے دنیا پہ تُو پروانہ وار، گو تجھے جلنا پڑے انجام کار
پھر یہ دعویٰ ہے کہ ہم ہیں ہوشیار، کیا یہی ہے ہوشیاری کا شعار
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
حیف دنیا کا تو ہو پروانہ تو اور کرے عقبیٰ کی کچھ پروا، نہ تُو
کس قدر ہے ہے عقل سے بے گانہ تو اس پہ بنتا ہے بڑا فرزانہ تُو
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے

عزیز الحسن مجذوب

No comments:

Post a Comment