دشتِ بلا میں ابر نظر آ گیا تو کیا
میں دور ہوں، وہ پاس اگر آ گیا تو کیا
ہم کو تو جھیلنا ہے مسلسل سفر کا دکھ
رستے میں اتفاق سے گھر آ گیا تو کیا
صحراؤں کے سفر سے بھی لوٹا ہوں سرخرو
اس شہرِ بے ہنر میں مِری خامشی کے بعد
لوگوں کو بولنے کا ہنر آ گیا تو کیا
کاٹا ہے زندگی کا سفر تیز دھوپ میں
رستے میں ایک آدھ شجر آ گیا تو کیا
راغب تحسین
No comments:
Post a Comment