Friday 28 August 2020

کبھی عذاب طلب ہوں کبھی امان تلاش

کبھی عذاب طلب ہوں کبھی امان تلاش
میں دھوپ اوڑھ کے کرتا ہوں سائبان تلاش
خلانورد سے مشکل ہے اپنا کام، کہ ہم
زمیں کی گود میں کرتے ہیں آسمان تلاش
کہیں  جگہ نہ ملی ہم کو سر چھپانے کی
گھروں کے شہر میں کرتے رہے مکان تلاش
تلاش کیجئے لہجے میں وقت کا نوحہ
نہ کیجئے مِرے اشعار میں زبان تلاش
دیا ہے آپ نے آوارگی کا نام تو کیا
رکھا ہے میں نے تو عنوانِ داستانِ تلاش
ہہ کہہ رہا تھا مِرا ہاتھ  پڑھ کے دست شناس
"فقط لکھا ہے لکیروں کے درمیان "تلاش
وہ ایک روز تجھے بھی تلاش کر لے گا
جو کر رہا ہے مِرے قتل کے نشان تلاش
کہاں کہاں نہ مِرے نقشِ پا گواہ بنے
کہاں کہاں نہ کیا تجھ کو میری جان تلاش

راغب تحسین

No comments:

Post a Comment