گھر کو جنت نما بنائے وے ہیں
آج کل وہ میرے گھر آئے وے ہیں
ہم سے اپنا مقابلہ نہ کرو
ہم بڑے گہرے زخم کھائے وے ہیں
کچھ بُرا کر، گزر نہ جائیں کہیں
اپنا گھر بھی نہیں رہا اپنا
جب سے ہم غیر کو بسائے وے ہیں
ایک الجھن سی بات بات میں ہے
ہم کسی بات کو بھلائے وے ہیں
اک دریچے اور اک دِیے کا خواب
اپنی آنکھوں میں ہم بسائے وے ہیں
زندگی کو سنوارنے کے لیے
زندگی داؤ پر لگائے وے ہیں
منزلیں اس لیے نہیں ملتیں
رہنما غیر کے سدھائے وے ہیں
آئے جس کو ہے روشنی کی تلاش
ہم لہو سے دِیے جلائے وے ہیں
سر اٹھانا محال ہے جب تک
سر پہ ہم غیر کو بٹھائے وے ہیں
راغب تحسین
No comments:
Post a Comment