نہانا مت تو اے رشک پری زنہار پانی میں
حباب ایسا نہ ہو شیشہ بنے اک بار پانی میں
سنا اے بحر خوبی تیری اٹکھیلی سے چلنے کی
اڑائی رفتہ رفتہ موج نے رفتار پانی میں
جھلک اس تیرے کفش پشتِ ماہی کی اگر دیکھے
نہیں لختِ جگر یہ چشم میں پھرتے کہ مردم نے
چراغ اب کر کے روشن چھوڑے ہیں دو چار پانی میں
لبِ دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا
بھنور کا لے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں
کہوں کیا ساتھ غیروں کے تو اس بے دید نے ہمدم
نہانے کے لیے ہرگز نہ کی تکرار پانی میں
کہا میں نے جو اتنا رکھ قدم اس دیدۂ تر پر
لگا کہنے کہ آتی ہے مِری پیزار پانی میں
نصیر آساں نہیں یہ بات پانی سخت مشکل ہے
اٹھائی ریختے کی تُو نے کیا دیوار پانی میں
شاہ نصیر دہلوی
No comments:
Post a Comment