Friday 28 August 2020

نہانا مت تو اے رشک پری زنہار پانی میں

نہانا مت تو اے رشک پری زنہار پانی میں 
حباب ایسا نہ ہو شیشہ بنے اک بار پانی میں 
سنا اے بحر خوبی تیری اٹکھیلی سے چلنے کی 
اڑائی رفتہ رفتہ موج نے رفتار پانی میں 
جھلک اس تیرے کفش پشتِ ماہی کی اگر دیکھے 
کرے قالب تھی ماہی بھی پھر لاچار پانی میں 
نہیں لختِ جگر یہ چشم میں پھرتے کہ مردم نے 
چراغ اب کر کے روشن چھوڑے ہیں دو چار پانی میں 
لبِ دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا 
بھنور کا لے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں 
کہوں کیا ساتھ غیروں کے تو اس بے دید نے ہمدم 
نہانے کے لیے ہرگز نہ کی تکرار پانی میں 
کہا میں نے جو اتنا رکھ قدم اس دیدۂ تر پر 
لگا کہنے کہ آتی ہے مِری پیزار پانی میں 
نصیر آساں نہیں یہ بات پانی سخت مشکل ہے 
اٹھائی ریختے کی تُو نے کیا دیوار پانی میں 

شاہ نصیر دہلوی

No comments:

Post a Comment