Thursday 27 August 2020

وہ جھنکار پیدا ہے تار نفس میں

وہ جھنکار پیدا ہے تارِ نفس میں

کہ ہے نغمہ نغمہ مِری دسترس میں

تصور بہاروں میں ڈوبا ہوا ہے

چمن کا مزہ مل رہا ہے قفس میں

گلوں میں یہ سرگوشیاں کس لیے ہیں

ابھی اور رہنا پڑے گا قفس میں؟

نہ جینا ہے جینا، نہ مرنا ہے مرنا

نرالی ہیں سب سے محبت کی رسمیں

میں ہونے کو یوں تو رِہا ہوں گیا ہوں

مِری روح اب تک ہے لیکن قفس میں

نہ گرتا میں اے ناز ان کی نظر سے

دل اپنا یہ کم بخت ہوتا جو بس میں


ناز دہلوی 

No comments:

Post a Comment