قلزمِ الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا
جو سفینہ دل کا تھا درہم ہوا، برہم ہوا
تھامنا مشکل دلِ مضطر کو شامِ غم ہوا
یاد آتے ہی کسی کی، حشر کا عالم ہوا
کیا بتائیں کس طرح گزری شبِ وعدہ مِری
منتظر آنکھیں رہیں، دل کا عجب عالم ہوا
وہ عدو کو ساتھ لائے ہیں مِرے گھر دیکھیۓ
شربتِ دیدار کے نسخے میں داخل سَم ہوا
کس قدر تسکین رنجورِ محبت کو ہوئی
پیار سے دیکھا جو اس نے زخم کو مرہم ہوا
جب اٹھایا یار نے روئے منور سے نقاب
گر پڑا غش کھا کے کوئی اور کوئی بے دم ہوا
ناز دہلوی
شیر سنگھ
No comments:
Post a Comment