دیوانوں کو منزل کا پتا یاد نہیں ہے
جب سے تِرا نقشِ کفِ پا یاد نہیں ہے
افسردگئ عشق کے کھلتے نہیں اسباب
کیا بات بھلا بیٹھے ہیں کیا یاد نہیں ہے
ہم دلزدگاں جیتے ہیں یادوں کے سہارے
گھر اپنا تو بھولی ہی تھی آشفتگئ دل
خود رفتہ کو اب در بھی تراؐ یاد نہیں ہے
لیتے ہیں تراؐ نام ہی یوں جاگتے سوتے
جیسے کہ ہمیں اپنا "خدا" یاد نہیں ہے
یہ ایک ہی احسان غمِ دوست ہے کیا غم
بے مہرئ دوراں کی جفا یاد نہیں ہے
بے برسے گزر جاتے ہیں امڈے ہوئے بادل
جیسے انہیں میرا ہی "پتا" یاد نہیں ہے
اس بار وحید آپ کی آنکھیں نہیں برسیں
کیا جھومتی زلفوں کی گھٹا یاد نہیں ہے
وحید اختر
No comments:
Post a Comment