تم جو نہیں ہو، رہنے لگی گھر کے اندر تنہائی
محفل سے بھی مجھ کو اٹھا لاتی ہے جا کر تنہائی
کر کے وداع جو تم کو لوٹا، یار احباب نے بتلایا
پوچھ رہی تھی ملنے والوں سے میرا گھر تنہائی
میں تو کتابوں کی دنیا میں خود کو بہلا لیتا ہوں
اب سے پہلے اس کا ساتھ نبھانا بھی آتا تھا مجھے
کر دیتی ہے اب تو میرا جینا دو بھر تنہائی
برسوں میرے ساتھ رہی تھی تم آئے تو چھوڑ دیا
آ جاتی ہے اب بھی مجھ کو خالی پا کر تنہائی
اس کو مقفل کر کے کمروں میں نکلا تھا سفر پہ میں
ریل چلی تو بیٹھی ہوئی تھی میرے برابر تنہائی
تاش کے پتے، شیشہ و ساغر اچھے دنوں کے ساتھی ہیں
تم نہ رہو تو بن جاتے ہیں یہ بھی سراسر تنہائی
کبھی تمہاری دوری بن کر نیند سے چونکا دیتی ہے
سو جاتی ہے کبھی تمہاری طرح لپٹ کر تنہائی
جب کوئی تم سا گُلرو، گل پیراہن، گُل گفتار ملے
رکھ دیتی ہے آنکھ میں پھانس اور دل میں نشتر تنہائی
کبھی کرن کی انگلی تھامے شبنم سے بھی سبک خرام
اور کبھی بن جاتی ہے سینے کا "پتھر" تنہائی
ہم سخنی کے روز و شب لب بوسی میں کٹ جاتے ہیں
آتی ہے چننے کو تمہارے لب کے گوہر تنہائی
غزلیں لکھنا بھی ہے بہانہ تم سے باتیں کرنے کا
نم دیدہ لفظوں میں بکھرتی ہے کاغذ پر تنہائی
وحید اختر
No comments:
Post a Comment