ٹھنڈ بڑھتی ہے تو انگارِ فشاں بولتا ہے
آگ بجھتی ہے تو بے چین دھواں بولتا ہے
یا تو ہوتا ہی نہیں مائلِ گویائی کوئی
یا پھر اس شہر میں ہر شخص اماں بولتا ہے
اے کہ شہ رگ سے بھی نزدیک کبھی آنکھ میں آ
کوئی تجھ جیسا لگے دیکھنے میں لاکھ، مگر
تیرے ملہار سے لہجے میں کہاں بولتا ہے
وہ مرے سامنے یوں گویا ہوا ہجر کی شام
جیسے برفاب پہاڑوں کا سماں بولتا ہے
رات ڈھلتی ہے تو یوں بولتے ہیں درد تِرے
جیسے معتوب قبیلے کا جواں بولتا ہے
یہ کرشمہ ہے کہ اعجازِ خلوصِ نیت
بولتا ہوں تو میرے ساتھ جہاں بولتا ہے
ایک اظہار نہ کر پانے کے دکھ میں احمد
اب جہاں چپ کا تقاضا ہو، وہاں بولتا ہے
تیرے ملہار سے لہجے میں کہاں بولتا ہے
وہ مرے سامنے یوں گویا ہوا ہجر کی شام
جیسے برفاب پہاڑوں کا سماں بولتا ہے
رات ڈھلتی ہے تو یوں بولتے ہیں درد تِرے
جیسے معتوب قبیلے کا جواں بولتا ہے
یہ کرشمہ ہے کہ اعجازِ خلوصِ نیت
بولتا ہوں تو میرے ساتھ جہاں بولتا ہے
ایک اظہار نہ کر پانے کے دکھ میں احمد
اب جہاں چپ کا تقاضا ہو، وہاں بولتا ہے
احمد حماد
No comments:
Post a Comment