Wednesday 26 August 2020

اپنے ہونے کا بھی اظہار نہیں کر سکتا

اپنے ہونے کا بھی اظہار نہیں کر سکتا
میں تجھے کھل کے کبھی پیار نہیں کر سکتا
تُو نے چھوڑا تو یقیں آیا کہ کر سکتا ہے
میں سمجھتا تھا مِرا یار نہیں کر سکتا
جِہل کے ہاتھ میں چپ چاپ مرے گا اک دن
تُو اگر لفظ کو تلوار🗡 نہیں کر سکتا
سامنے آ کے تِرے بارے میں سچ بولتا ہوں
یعنی چھپ کر میں کبھی وار نہیں کر سکتا
جس طرح میں نے زمانہ بھی تِری نذر کیا
اس طرح شہر کا زردار نہیں کر سکتا

احمد حماد

No comments:

Post a Comment