فضا خاموش، غم آلود منظر لگ رہا ہے
بھلے کچھ بھی نہ ہو لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے
زمیں سے پاؤں جب لگ جائیں تو نظریں ملانا
ابھی تو آسماں سے آپ کا سر لگ رہا ہے
بہت جلدی میں ہوں، تصدیق پھر آ کر کروں گا
یہاں تفریق کوئی کیا کرے گا خیر و شر میں
یہاں منصف بھی مجرم کے برابر لگ رہا ہے
ہوۓ اعصاب شل، حیران کن مایوسیوں سے
بہت زرخیز تھا جو ذہن، بنجر لگ رہا ہے
ہوئے اعصاب شل حیران کن مایوسیوں سے
بہت زرخیز تھا جو ذہن، بنجر لگ رہا ہے
بفیضِ مرگ، رنج و درد سے آزاد ہو کر
مریضِ عشق اب پہلے سے بہتر لگ رہا ہے
راغب تحسین
No comments:
Post a Comment