اس قدر غم ہے کہ اظہار نہیں کر سکتے
یہ وہ دریا ہے،۔ جسے پار نہیں کر سکتے
آپ چاہیں تو کریں درد کو دل سے مشروط
ہم تو اس طرح کا بیوپار نہیں کر سکتے
جان جاتی ہے تو جائے، مگر اے دشمنِ جاں
جتنی رسوائی ملی، آپ کی نسبت سے ملی
آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے
دل کہیں کا نہ رہا، ہم بھی کہیں کے نہ رہے
اور اسی بات کا اقرار نہیں کر سکتے
آپ کر سکتے ہیں خوشبو کو صبا سے محروم
اور کچھ صاحبِ کردار نہیں کر سکتے
ایک زنجیر سی پلکوں سے بندھی رہتی ہے
پھر بھی اک دشت کو گلزار نہیں کر سکتے
یہ گلِ درد ہے، اس کو تو مہکنا ہے حضور
آپ خوشبو کو گرفتار نہیں کر سکتے
ایوب خاور
No comments:
Post a Comment