Friday 28 August 2020

نہ کوئی دن نہ کوئی رات انتظار کی ہے

نہ کوئی دن نہ کوئی رات انتظار کی ہے
کہ یہ جدائی بھروسے کی، اعتبار کی ہے
جو خاک اڑی ہے مِرے دکھ سمیٹ لیں گے اسے
جو بچھ گئی سرِ مژگاں، وہ رہ گزار کی ہے
یہ آرزو کہ کھلے انگلیوں پہ عکسِ جمال
اس آرزو میں کہیں بات اختیار کی ہے
اسی کا نام ہے وحشت سرائے جاں کا چراغ
اور اس چراغ میں لَو کس دلِ فگار کی ہے
وہ کون تھا؟ جو سرِ بام آ کے لوٹ گیا
یہ کس کا رقص ہے، گردش یہ کس غبار کی ہے
یہ کون مجھ میں ہرے موسموں کے ساتھ آیا
یہ کس کے رنگ ہیں، خوشبو یہ کس دیار کی ہے
جلانے والے نے خاور بجھا دئیے ہیں چراغ
یہی قیام کی ساعت، یہی فرار کی ہے

ایوب خاور

No comments:

Post a Comment