آگ برستی ہے اب اس کی چھاؤں سے
میں نکلا ہوں چھپ کر اپنے گاؤں سے
جنت میرے سینے میں آ جاتی ہے
جب لگتی ہیں پلکیں ماں کے پاؤں سے
آؤ، ان کو چومیں، ان سے پیار کریں
ہو سکتا ہے، بندے تھوڑے رہ جائیں
بھرتے جاتیں ہیں یہ شہر خداؤں سے
کیا بتلاؤں، چہرہ کتنا مسخ ہوا؟
میں نے لاش کو پہچانا ہے پاؤں سے
جا بیٹھا ہوں پھر اس کی دہلیزوں پر
اور میں لڑتا کتنی دیر اناؤں سے؟
میں ہی جیسے ایک خطا کا پُتلا ہوں
باقی پاک ہیں سارے لوگ خطاؤں سے
اک شاعر کی قبر یہاں پر ہوتی تھی
کہتا تھا وہ مار کے ٹھوکر پاؤں سے
غزنی صاحب کیوں یہ جنگیں ہوتی ہیں
کتنے بچے بچھڑے اپنی ماؤں سے؟
محمود غزنی
No comments:
Post a Comment