عجیب شخص ہے پتھر سے پر بناتا ہے
دیارِ سنگ میں شیشہ کا گھر بناتا ہے
فضا کا بوجھ سمجھتا ہے چاند سورج کا
وہ گردنوں پہ سجانے کو سر بناتا ہے
جہاں سے قافلۂ وقت راہ بھولا تھا
تراشتا ہے جگر، وہ بھی آبگینوں سے
خزف کو کاسۂ عرضِ ہنر بناتا ہے
دل و نظر کے فسوں اس کو راس آ نہ سکے
وہ آئینوں سے گزرنے کو در🚪 بناتا ہے
یہ کس سے کہیۓ کہ تنویر خود صلیبوں کو
سکونِ جاں کیلئے ہمسفر👫 بناتا ہے
تنویر احمد علوی
No comments:
Post a Comment