Friday 28 August 2020

سربلندی تو صلیبوں کا مقدر ہے یہاں

سر بلندی تو صلیبوں کا مقدر ہے یہاں
دیکھ لو سامنے محراب ہے منبر ہے یہاں
جس کی تقدیر میں ٹوٹا ہوا آئینہ ہو
اس سے کیا کہیۓ کہ کون سکندر ہے یہاں
کوئی کانٹوں کا بھی دیتا ہے کسی کو تحفہ؟
دل میں رکھنے کا تو احساس کا نشتر ہے یہاں
دل کے ٹکڑے ہی اٹھا لاؤ صنم خانے سے
بت شکن تھا جو کبھی، آج وہ آذر ہے یہاں
اب کسی موڑ↶ کا آنا نہیں ممکن، ٹھیرو
دور تک اب تو سرابوں کا سمندر ہے یہاں
آبگینہ لیے پھرتے ہو بغل میں تنویر
دیکھنا ہاتھ میں ہر شخس کے پتھر ہے یہاں

تنویر احمد علوی

No comments:

Post a Comment