سر بلندی تو صلیبوں کا مقدر ہے یہاں
دیکھ لو سامنے محراب ہے منبر ہے یہاں
جس کی تقدیر میں ٹوٹا ہوا آئینہ ہو
اس سے کیا کہیۓ کہ کون سکندر ہے یہاں
کوئی کانٹوں کا بھی دیتا ہے کسی کو تحفہ؟
دل کے ٹکڑے ہی اٹھا لاؤ صنم خانے سے
بت شکن تھا جو کبھی، آج وہ آذر ہے یہاں
اب کسی موڑ↶ کا آنا نہیں ممکن، ٹھیرو
دور تک اب تو سرابوں کا سمندر ہے یہاں
آبگینہ لیے پھرتے ہو بغل میں تنویر
دیکھنا ہاتھ میں ہر شخس کے پتھر ہے یہاں
تنویر احمد علوی
No comments:
Post a Comment