قسم خدا کی یہی خوف اب ستائے مجھے
نہ تیرا قرب کہیں دوریاں دکھائے مجھے
وہ چھوڑنا تو چلو چاہتا تھا، چھوڑ دیا
گلی کے موڑ تلک چھوڑنے تو آئے مجھے
ابھی کہا تو نہیں، سچ میں کہنا والا تھا
جو روز کہتا تھا؛ تُو دیکھنے کے قابل ہے
اسے کہو کہ کبھی دیکھنے تو آئے مجھے
کھڑا ہے دھوپ کی دیوار لے کے رستے میں
جو دینا چاہتا تھا ہر قدم پہ سائے مجھے
مِرا وجود بھی اس روشنی کا حصہ تھا
یہ لوگ کھینچ کے زیرِ چراغ لائے مجھے
جو دیکھا جائے تو خواہش کوئی بری تو نہیں
مِری غزل کی طرح روز گنگنائے مجھے
برا سلوک اگر میرے ساتھ کرنا تھا
تو لوگ کھینچ کے کیوں ساحلوں پہ لائے مجھے
میں ایک گیت بنوں، لازوال چاہت کا
خوشی سے جھوم کے یہ سارا شہر گائے مجھے
یہاں یہاں بھی مِرے یار بیٹھا کرتے تھے
یہ لے ڈوب گیا اختلاف رائے مجھے
خلافِ حکم ہوا ہے؟ اِدھر اُدھر غزنی
مثال دے کے کوئی شخص تو بتائے مجھے
تمام رات میں جس کے لیے جلا غزنی
سحر کے وقت وہی پھونک سے بجھائے مجھے
محمود غزنی
No comments:
Post a Comment