Thursday 27 August 2020

اسے برملا دیکھنا چاہتا ہوں

اسے برملا دیکھنا چاہتا ہوں
ادب اے محبت یہ کیا چاہتا ہوں
غم عشق کا سلسلا چاہتا ہوں
میں تجھ تک تِرا واسطا چاہتا ہوں
کرم ہائے نا مستقل کا گلہ کیا
ستم ہائے بے انتہا چاہتا ہوں
وہ گھبرا کے جس پر نظر ڈال ہی دیں
میں وہ قلبِ شورش ادا چاہتا ہوں
کرم کیجیئے تو کرم کا ہوں طالب
سزا دیجئے تو سزا چاہتا ہوں
تِری یاد اچھی، تِرا ذکر پیارا
مگر میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں
تِرے عشق ہی سے بنی میری ہستی 
تِرے عشق ہی میں مِٹا چاہتا ہوں
جو تازہ کرے قصۂ طور باسطؔ 
میں ایسا ہی اک واقعہ چاہتا ہوں

باسط بھوپالی

No comments:

Post a Comment