Thursday 27 August 2020

بس میں کر ان انگلیوں کے تو نہ پوروں کو حنا

بس میں کر ان انگلیوں کے تو نہ پوروں کو حنا
ہاتھ لگ جائے تو دوں میں تجھ کو چوروں کو حنا
اہلِ دنیا کے کب آیا رنگ درویشی کا ہاتھ 
کیا لگانا چاہئے ہاتھوں میں گوروں کو حنا 
اے صبا کیا منہ ہے جو دعوائے‌ ہمرنگی کرے 
دیکھ کر گلشن میں پھولوں کے کٹوروں کو حنا 
سرخرو مہندی لگا کر کیا ہو معشوقِ حبش 
جب لگائے بیٹھے تُو ہاتھوں میں گوروں کو حنا 
در پہ لگواتا ہے گر اپنے شہیدوں کی سبیل 
تو پھر اے قاتل! لگا تُو آب خوروں کو حنا 
ناخنِ انگشت دستِ مہوشاں کو کر کے سرخ 
مثلِ اخگر کر دکھاتی ہے چکوروں کو حنا 
رکھ دل پر داغ مت اس کا خیال خطِ سبز 
پاؤں سے ملتے نہیں دیکھا ہے موروں کو حنا 
دل سے تو پس جائے سر سے قصد پا بوسی کرے 
گر تِرے آنکھوں کے دیکھے سرخ ڈوروں کو حنا 
مت ملا مہ طلعتوں سے ہاتھ کیوں تڑوائے ہے 
پنجۂ خورشید سے پوچھ ان کے زوروں کو حنا 
جوں رگِ برگِ گلِ احمر بنا دے ہے یہاں 
دو گھڑی میں اسکے ہر ناخن کی کوروں کو حنا 
مہر و مہ رنگ شفق سے سرخ ہیں یہ صبح و شام 
ملتے ہیں خون جگر دیکھ ان سکوروں کو حنا 
دزدیٔ رنگِ حنائی جو کرے ہیں اے نصیر
دے ہے ہاتھوں ہاتھ بندھوا ایسے چوروں کو حنا 

شاہ نصیر دہلوی

No comments:

Post a Comment