میں ضعف سے جوں نقشِ قدم اٹھ نہیں سکتا
بیٹھا ہوں سرِ خاک پہ جم، اٹھ نہیں سکتا
اے اشکِ رواں! ساتھ لے اب آہِ جگر کو
عاشق کہیں بے فوج و علم اٹھ نہیں سکتا
سر معرکۂ عشق میں آساں نہیں دینا
دل پر ہے مِرے خیمۂ ہر آبلہ استاد
کیا کیجے کہ یہ لشکرِ غم اٹھ نہیں سکتا
رو رو کے لکھا خط جو اسے میں نے تو بولا
اک حرف سرِ کاغذِ نم اٹھ نہیں سکتا
ہر دم لبِ فوارہ سے جاری یہ سخن ہے
پانی نہ ذرا جس میں ہو دم اٹھ نہیں سکتا
میں اٹھ کے کدھر جاؤں، ٹھکانا نہیں کوئی
میرا تِرے کوچے سے قدم اٹھ نہیں سکتا
مہندی تو سراسر نہیں پاؤں میں لگی ہے
تُو بہرِ عیادت جو صنم اٹھ نہیں سکتا
بیمار تِرا صورتِ تصویرِ نہالی
بستر سے تِرے سر کی قسم، اٹھ نہیں سکتا
جوں غنچہ نصیر اس بتِ گل رو کی جو ہے یاد
یاں سر ہو گریباں سے بہم، اٹھ نہیں سکتا
شاہ نصیر دہلوی
No comments:
Post a Comment