کوئی بھی دار سے زندہ نہیں اترتا ہے
مگر جنون ہمارا نہیں اترتا ہے
تباہ کر دیا احباب کو سیاست نے
مگر مکان سے جھنڈا نہیں اترتا ہے
میں اپنے دل کے اجڑنے کی بات کس سے کہوں
کبھی قمیض کے آدھے بٹن لگاتے تھے
اور اب بدن سے لبادہ نہیں اترتا ہے
مصالحت کے بہت راستے ہیں دنیا میں
مگر صلیب سے عیسیٰ نہیں اترتا ہے
جواریوں کا مقدر خراب ہے شاید
جو چاہیۓ وہی پتا نہیں اترتا ہے
شکیل جمالی
No comments:
Post a Comment