Thursday 27 August 2020

کوئی بھی دار سے زندہ نہیں اترتا ہے

کوئی بھی دار سے زندہ نہیں اترتا ہے
مگر جنون ہمارا نہیں اترتا ہے
تباہ کر دیا احباب کو سیاست نے
مگر مکان سے جھنڈا نہیں اترتا ہے
میں اپنے دل کے اجڑنے کی بات کس سے کہوں
کوئی مزاج پہ پورا نہیں اترتا ہے
کبھی قمیض کے آدھے بٹن لگاتے تھے
اور اب بدن سے لبادہ نہیں اترتا ہے
مصالحت کے بہت راستے ہیں دنیا میں
مگر صلیب سے عیسیٰ نہیں اترتا ہے
جواریوں کا مقدر خراب ہے شاید
جو چاہیۓ وہی پتا نہیں اترتا ہے

شکیل جمالی

No comments:

Post a Comment