Thursday 27 August 2020

نہ کوئی خواب کمایا نہ آنکھ خالی ہوئی

نہ کوئی خواب کمایا نہ آنکھ خالی ہوئی
تمہارے ساتھ ہماری بھی رات کالی ہوئی
خدا کا شکر ادا کر، وہ بے وفا نکلا
خوشی منا کہ تِری جان کی بحالی ہوئی
ذرا سے خواب بنے تھے کہ سانس پھول گئی
قدم دکاں پہ رکھا تھا کہ جیب خالی ہوئی
وفا کے بارے میں لوگوں کی رائے ٹھیک نہیں
برادری سے یہ خاتون ہے نکالی ہوئی
تمہی تو سر پہ بٹھائے ہوئے تھے دنیا کو
تمہی پہ بھونک رہی ہے تمہاری پالی ہوئی
میں کیسے دیکھوں رواداریوں کو مٹتے ہوئے
یہ داغ بیل ہے میرے بڑوں کی ڈالی ہوئی
جو اہلِ نقد و نظر ہیں اِدھر بھی غور کریں
کہ یہ غزل بھی ہے ترکیب سے نکالی ہوئی
یہ قافیہ بڑی دقت کے ساتھ نظم ہوا
بڑے جتن سے یہ عورت مسز جمالی ہوئی

شکیل جمالی

No comments:

Post a Comment