تیرا جب ذکر، تیری بات ہو گی
تو رنگ و نور کی، برسات ہو گی
یہی گر تلخئ حالات ہو گی
تو پھر کیا خاک ان سے بات ہو گی
غضب کی پیاس ہونٹوں پر جمی ہے
مِری یادوں کے جگنو ساتھ رکھنا
یقیناً راستے میں رات ہو گی
پرندوں سے کہا، موجِ ہوا نے
جہاں ٹھہرے وہیں پر گھات ہو گی
مخاطب جس طرح ہو گا زمانہ
اسی لہجے میں اس سے بات ہو گی
شبِ وعدہ بھی آۓ گی، یقیناً
کسی دن تو ملن کی رات ہو گی
حصارِ جبر ہے اب ٹوٹنے کو
یہی دو چاردن کی بات ہو گی
چلو دن ڈھل چکا شاہین، اب تو
وہاں گھر میں اکیلی رات ہو گی
شاہین ڈیروی
(ڈاکٹر صابرہ شاہین)
No comments:
Post a Comment