Friday 28 August 2020

تیرا جب ذکر تیری بات ہو گی

تیرا جب ذکر، تیری بات ہو گی
تو رنگ و نور کی، برسات ہو گی
یہی گر تلخئ حالات ہو گی
تو پھر کیا خاک ان سے بات ہو گی
غضب کی پیاس ہونٹوں پر جمی ہے
تِرے آنگن میں تو برسات ہو گی
مِری یادوں کے جگنو ساتھ رکھنا
یقیناً راستے میں رات ہو گی
پرندوں سے کہا، موجِ ہوا نے
جہاں ٹھہرے وہیں پر گھات ہو گی
مخاطب جس طرح ہو گا زمانہ
اسی لہجے میں اس سے بات ہو گی
شبِ وعدہ بھی آۓ گی، یقیناً
کسی دن تو ملن کی رات ہو گی
حصارِ جبر ہے اب ٹوٹنے کو
یہی دو چاردن کی بات ہو گی
چلو دن ڈھل چکا شاہین، اب تو
وہاں گھر میں اکیلی رات ہو گی

شاہین ڈیروی
(ڈاکٹر صابرہ شاہین)

No comments:

Post a Comment