شامل مِرے غبار میں صحرا اگر نہ ہو
مجھ سے تو اک قدم بھی یہ وحشت بسر نہ ہو
کیسے وہ کوہسار کے دکھ کو سمجھ سکے
چشمے پہ جس کو شائبۂ چشمِ تر نہ ہو
پتھر زمیں پہ پھینک کے چھینٹے اڑاوں میں
اپنے جمال پر اسے پختہ یقیں بھی ہے
ڈرتا بھی ہے کہ یہ مِرا حسنِ نظر نہ ہو
تجھ سے نہیں ملا تھا مگر چاہتا تھا میں
تُو ہم سفر ہو اور کہیں کا سفر نہ ہو
یہ کہہ کے میرے گھر سے فرشتے چلے گئے
وہ کوئی گھر ہے جس میں پرندوں کا گھر نہ ہو
دیدار چاہتا ہے تہجد گزارِ عشق
یارب! قبولیت کی گھڑی تک سحر نہ ہو
تابش بزعمِ خود جنہیں عزت ہوئی نصیب
وہ چاہتے ہیں اور کوئی معتبر نہ ہو
عباس تابش
No comments:
Post a Comment