Friday 28 August 2020

کچھ اشارے وہ سر بزم جو کر جاتے ہیں

کچھ اشارے وہ سرِ بزم جو کر جاتے ہیں

ناوکِ ناز کلیجے میں اتر جاتے ہیں

اہلِ دل راہِ عدم سے بھی گزر جاتے ہیں

نام لیوا تِرے بے خوف و خطر جاتے ہیں

سفرِ زیست ہوا ختم نہ سوچا، لیکن

ہم کو جانا ہے کہاں اور کدھر جاتے ہیں

نِگہِ لطف میں ہے عقدہ کشائی مضمر

کام بگڑے ہوۓ بندوں کے سنور جاتے ہیں

خوب بدنام کِیا اپنی سیہ کاری نے

انگلیاں اٹھتی ہیں محشر میں جدھر جاتے ہیں

آنکھ کھل جاتی ہے چونک اٹھتے ہیں سونے والے

وہ دبے پاؤں جو تُربت سے گزر جاتے ہیں

کشتۂ ناز تِرا کیوں نہ زمیں پر لوٹے

داغِ دل جتنے ہیں اس طرح وہ بھر جاتے ہیں


ناز دہلوی 

No comments:

Post a Comment