یہی نہیں کہ ہمیں یار بھول بھال گیا
زمانہ سارا ہی، فردا پہ ہم کو ڈال گیا
دراز قد بھی گرے پستہ قد کے قدموں میں
وہی بڑا ہے جو بارود کو اچھال گیا
زمیں پہ بیٹھ کے گنتے ہیں آؤ سب مل کر
ہوا ہی کیا جو ہوائیں بھی یرغمال ہوئیں
وہ تیرے واسطے سِکے تو کچھ اچھال گیا
عروج رکھا ہوا تھا مِری ہتھیلی پر
میں جان بوجھ کے بھی جانبِ زوال گیا
مِری نظر میں بڑا ہے وہ بادشاہوں سے
جو اک یتیم کو بیٹا سمجھ کے پال گیا
میں جس کے پاؤں کے نیچے گلاب رکھتا تھا
مِرے وجود کو آتش کدے میں ڈال گیا
محمود غزنی
No comments:
Post a Comment