Thursday 27 August 2020

یہی نہیں کہ ہمیں یار بھول بھال گیا

یہی نہیں کہ ہمیں یار بھول بھال گیا
زمانہ سارا ہی، فردا پہ ہم کو ڈال گیا
دراز قد بھی گرے پستہ قد کے قدموں میں
وہی بڑا ہے جو بارود کو اچھال گیا
زمیں پہ بیٹھ کے گنتے ہیں آؤ سب مل کر
کہ کتنی بھیک ہمیں دے کے پچھلا سال گیا
ہوا ہی کیا جو ہوائیں بھی یرغمال ہوئیں
وہ تیرے واسطے سِکے تو کچھ اچھال گیا
عروج رکھا ہوا تھا مِری ہتھیلی پر
میں جان بوجھ کے بھی جانبِ زوال گیا
مِری نظر میں بڑا ہے وہ بادشاہوں سے
جو اک یتیم کو بیٹا سمجھ کے پال گیا
میں جس کے پاؤں کے نیچے گلاب رکھتا تھا
مِرے وجود کو آتش کدے میں ڈال گیا

محمود غزنی

No comments:

Post a Comment